یہ کیا کہ سانس سانس اذیت بنی رہے
یہ کیا کہ ایک عمر ہو ،وہ بھی بسر نہ ہو
یہ کیا کہ بے ثمر ہی رہے درد کا شجر
یہ کیا کہ خون تھوکیے ،لیکن اثر نہ ہو
اک زہر مستقل جو رگوں میں رواں رہے
اک۔شخص جس کے چھوڑ کے جانے کا ڈر نہ ہو
اک ہجر جس میں مہکا رہے لمس کا کنول
اک وصل جس میں قرب کا کوئی گزر نہ ہو
احمد فرہاد
حالیہ تبصرے